تیسرا ٹیسٹ ڈرا، 27سال بعد پاکستان کو ٹیسٹ سیریزمیں شکست کھلاڑی کالم نگاری،اداکاری،شاپنگ،نائٹ کلبوں میں راتیں گزارنا
اوراشتہارات میں کام کے متلاشی رہےقومی کرکٹرز کو اس بات کا احساس ہی نہیں رہا کہ وہ
ایک قوم کی ترجمانی کررہے ہیں
یوں لگتا ہے کہ جیت پاکستانی ٹیم کے در دروازے بھول چکی ہے۔پہلے ون ڈے سیریز میں شکست کا سامنا کرناپڑا اور اب ٹیسٹ سیریز میں بھی ہار کا منہ دیکھنا پڑا ہے جبکہ اس سے قبل جب ٹیم بھارت کے دورے پر جارہی تھی تو جانے سے چار روز قبل جنوبی افریقہ کے ہاتھوں ون ڈے سیریز میں شکست کھانے کے بعد پریس کانفرنس کے دوران میں شعیب ملک کا کہنا تھا کہ ہمارے لیے دورہ بھارت انتہائی اہمیت کا حامل ہے جنوبی افریقہ کے ہاتھوں شکست سے ہمیں فائدہ پہنچا ہے کہ ہمیں اپنی کمزوریوں کا علم ہوگیا ہے لہذا بھارت جاکر ہم ان غلطیوں کا نہ صرف ازالہ کرینگے بلکہ ہندوستان میں اپنی کامیابی کے ریکارڈ کو برقرار رکھتے ہوئے فتوحات حاصل کرینگے لیکن قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان کے تمام دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں اور 24سال بعد ون ڈے سیریز اور 27سال بعد ٹیسٹ سیریز میں بھارت نے پاکستان کو اپنی سرزمین پر شکست سے دوچار کردیا ہے جو کہ موجود قومی کرکٹ ٹیم پرایک بد نماداغ ہے۔کیونکہ پاکستان کے گزشتہ دورہ بھارت کے موقع پر ٹیم کے پاس نہ تو شعیب اختر جیسا سپیڈ سٹار تھا اور نہ ہی مصباح الحق جیسا مین آف دی کرائسسز تھا لیکن اس کے باوجود پاکستان نے محض رانا نوید جیسے کمزور سپیڈکے مالک بولر کے ساتھ 25سال سے قائم ریکارڈ کو ٹوٹنے نہ دیا لیکن اس بار نہ صرف ٹیم کے پاس بڑے بڑے نام تھے بلکہ ٹیم کی حوصلہ افزائی کیلئے کرکٹ بورڈ کے تینوں ڈئرایکٹر ز،تینوں سلیکٹرز اور پی سی بی کے چیئرمین نسیم اشرف صاحب بھی ٹیم کے ہمراہ بھارت میں موجود رہے لیکن اس کے باوجود 27سال بعدشکست ملنے پر مسوائے حیرت زدہ ہوئے اور کیا کیا جاسکتا ہے؟۔بھارت کے دورہ پر پاکستان کو محض دو ون ڈے میچز میں کامیابی نصیب ہوئی جو کہ میرے خیال میں قومی ٹیم کے شان شایان میں نہیں ہے لیکن حیران کن امر یہ ہے کہ ناقص کارکردگی کے بعد ٹیم کے ارکان اور انتظامیہ کے چہرے مطمئن ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ہے یا جیسے تمام تر نتائج توقع کے عین مطابق سامنے آئے ہوں اس لیے وہ ہشاش بشاش لگ رہے ہیں۔ہار جیت کھیل کا حصہ ہے لیکن بغیر کچھ مزاحمت کیے ہار جانا برداشت نہیں ہوتا اور بالخصوص بھارت کے خلاف آسانی سے شکست پر خاموش رہنا ہم پاکستانیوں کے بس کی بات نہیں ہے کیونکہ کراہ ارض پر بھارت ہی ایک ایسا ملک ہے جو پاکستانی قوم کا سب سے بڑا دشمن ہے پوری قوم بھارت کے ہاتھوں شکست پر افسردہ ہوتی ہے لیکن حیرانی کی بات ہے ہمارے موجودہ کرکٹرز کو اس بات کا قطعی احساس نہیں ہے کہ وہ ایک قوم کی ترجمانی کررہے ہیں اور پوری قوم کی امیدوں کے وہ محور ہیں ان تمام باتوں سے قطع نظر ہمارے کرکٹرز نے بھارتی اخباروں میں کالم لکھنا ،فلموں میں کام حاصل کرنے کی جستجو کرنا ،شاپنگ کرنا،سینما ہال جانا، نائٹ کلب میں جا کر ہلا گلہ کرنا اور اشتہاری کمپنیوں کے نمائندوں کے آگے پیچھے پھرنے کے سوا کچھ بھی نہیں کیا۔جس کی بدولت پاکستان کو دو دہائیوں بعد بھارتی سرزمین پر رسوا ہو کر وطن لوٹنا پڑا جو کہ پاکستانی کرکٹرز کی لاپرواہی اور انتظامیہ کی نااہلی کا کھلا ثبوت ہے۔کوئی کپتانی کے زور پر کھیل رہا ہے تو کوئی کپتانی کے حصول کیلئے کھیل رہا ہے کسی کو کپتانی سے الجھن ہے تو کوئی ہر بات سے بے خبر ہوکر اپنی جگہ برقرار رکھنے کیلئے کھیل رہا ہے۔یوں لگتا ہے کہ سبھی وقت گزار رہے ہیں اور بورڈ کے عہدیدار انہیں بھر پور تحفظ کے یقین دہانی کرارہے ہیں۔ سلیکٹرز اپنی من مانی کررہے ہیں اور میرٹ کے نام پر اپنے چہیتے کھلاڑیوں کو ٹیم میں کھیلا جارہا ہے۔عبدالرازق اور عمران فرحت جیسے کہنہ مشق کھلاڑی ناراض ہو کر کھیل سے کنارہ کشی اختیار کرچکے ہیں جبکہ شاہد آفریدی اور عمران نذیر جیسے تابڑتوڑ کھلاڑی چیف سلیکٹر کی ستم ظریفی کا شکار ہوچکے ہیں شعیب ملک کو بلاوجہ مزید ایک سال کیلئے کپتان نامزد کرکے سنیئر کھلاڑیوں میں انتشار کی فضا پیدا کردی گئی ہے۔میں نے پندرہ دن قبل اپنے کالم میں لکھا تھا کہ قومی کرکٹ ٹیم کے حالات ایمرجنسی کی جانب گامزن ہیں اور اب ایمرجنسی کا نفاذ ناگزیر ہوچکا ہے لیکن جس طرح ملک میں ناانصافی اور من مانی کا راج ہے یہی صورت حال کرکٹ بورڈ کی ہے لہذا سبھی ناانصافی کے دور سے سے فائدہ اٹھارہے ہیں کیونکہ جہاں کوئی پوچھنا والا نہ ہو وہاں کے اداروں اور ٹیموں کی کارکردگی کا یہی حشر ہوتا ہے۔ایک پاکستانی ہونے کے ناطے میں یہی دعا کرسکتا ہوں کہ اللہ پاکستان پر رحم فرمائے۔آمین
یوں لگتا ہے کہ جیت پاکستانی ٹیم کے در دروازے بھول چکی ہے۔پہلے ون ڈے سیریز میں شکست کا سامنا کرناپڑا اور اب ٹیسٹ سیریز میں بھی ہار کا منہ دیکھنا پڑا ہے جبکہ اس سے قبل جب ٹیم بھارت کے دورے پر جارہی تھی تو جانے سے چار روز قبل جنوبی افریقہ کے ہاتھوں ون ڈے سیریز میں شکست کھانے کے بعد پریس کانفرنس کے دوران میں شعیب ملک کا کہنا تھا کہ ہمارے لیے دورہ بھارت انتہائی اہمیت کا حامل ہے جنوبی افریقہ کے ہاتھوں شکست سے ہمیں فائدہ پہنچا ہے کہ ہمیں اپنی کمزوریوں کا علم ہوگیا ہے لہذا بھارت جاکر ہم ان غلطیوں کا نہ صرف ازالہ کرینگے بلکہ ہندوستان میں اپنی کامیابی کے ریکارڈ کو برقرار رکھتے ہوئے فتوحات حاصل کرینگے لیکن قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان کے تمام دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں اور 24سال بعد ون ڈے سیریز اور 27سال بعد ٹیسٹ سیریز میں بھارت نے پاکستان کو اپنی سرزمین پر شکست سے دوچار کردیا ہے جو کہ موجود قومی کرکٹ ٹیم پرایک بد نماداغ ہے۔کیونکہ پاکستان کے گزشتہ دورہ بھارت کے موقع پر ٹیم کے پاس نہ تو شعیب اختر جیسا سپیڈ سٹار تھا اور نہ ہی مصباح الحق جیسا مین آف دی کرائسسز تھا لیکن اس کے باوجود پاکستان نے محض رانا نوید جیسے کمزور سپیڈکے مالک بولر کے ساتھ 25سال سے قائم ریکارڈ کو ٹوٹنے نہ دیا لیکن اس بار نہ صرف ٹیم کے پاس بڑے بڑے نام تھے بلکہ ٹیم کی حوصلہ افزائی کیلئے کرکٹ بورڈ کے تینوں ڈئرایکٹر ز،تینوں سلیکٹرز اور پی سی بی کے چیئرمین نسیم اشرف صاحب بھی ٹیم کے ہمراہ بھارت میں موجود رہے لیکن اس کے باوجود 27سال بعدشکست ملنے پر مسوائے حیرت زدہ ہوئے اور کیا کیا جاسکتا ہے؟۔بھارت کے دورہ پر پاکستان کو محض دو ون ڈے میچز میں کامیابی نصیب ہوئی جو کہ میرے خیال میں قومی ٹیم کے شان شایان میں نہیں ہے لیکن حیران کن امر یہ ہے کہ ناقص کارکردگی کے بعد ٹیم کے ارکان اور انتظامیہ کے چہرے مطمئن ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ہے یا جیسے تمام تر نتائج توقع کے عین مطابق سامنے آئے ہوں اس لیے وہ ہشاش بشاش لگ رہے ہیں۔ہار جیت کھیل کا حصہ ہے لیکن بغیر کچھ مزاحمت کیے ہار جانا برداشت نہیں ہوتا اور بالخصوص بھارت کے خلاف آسانی سے شکست پر خاموش رہنا ہم پاکستانیوں کے بس کی بات نہیں ہے کیونکہ کراہ ارض پر بھارت ہی ایک ایسا ملک ہے جو پاکستانی قوم کا سب سے بڑا دشمن ہے پوری قوم بھارت کے ہاتھوں شکست پر افسردہ ہوتی ہے لیکن حیرانی کی بات ہے ہمارے موجودہ کرکٹرز کو اس بات کا قطعی احساس نہیں ہے کہ وہ ایک قوم کی ترجمانی کررہے ہیں اور پوری قوم کی امیدوں کے وہ محور ہیں ان تمام باتوں سے قطع نظر ہمارے کرکٹرز نے بھارتی اخباروں میں کالم لکھنا ،فلموں میں کام حاصل کرنے کی جستجو کرنا ،شاپنگ کرنا،سینما ہال جانا، نائٹ کلب میں جا کر ہلا گلہ کرنا اور اشتہاری کمپنیوں کے نمائندوں کے آگے پیچھے پھرنے کے سوا کچھ بھی نہیں کیا۔جس کی بدولت پاکستان کو دو دہائیوں بعد بھارتی سرزمین پر رسوا ہو کر وطن لوٹنا پڑا جو کہ پاکستانی کرکٹرز کی لاپرواہی اور انتظامیہ کی نااہلی کا کھلا ثبوت ہے۔کوئی کپتانی کے زور پر کھیل رہا ہے تو کوئی کپتانی کے حصول کیلئے کھیل رہا ہے کسی کو کپتانی سے الجھن ہے تو کوئی ہر بات سے بے خبر ہوکر اپنی جگہ برقرار رکھنے کیلئے کھیل رہا ہے۔یوں لگتا ہے کہ سبھی وقت گزار رہے ہیں اور بورڈ کے عہدیدار انہیں بھر پور تحفظ کے یقین دہانی کرارہے ہیں۔ سلیکٹرز اپنی من مانی کررہے ہیں اور میرٹ کے نام پر اپنے چہیتے کھلاڑیوں کو ٹیم میں کھیلا جارہا ہے۔عبدالرازق اور عمران فرحت جیسے کہنہ مشق کھلاڑی ناراض ہو کر کھیل سے کنارہ کشی اختیار کرچکے ہیں جبکہ شاہد آفریدی اور عمران نذیر جیسے تابڑتوڑ کھلاڑی چیف سلیکٹر کی ستم ظریفی کا شکار ہوچکے ہیں شعیب ملک کو بلاوجہ مزید ایک سال کیلئے کپتان نامزد کرکے سنیئر کھلاڑیوں میں انتشار کی فضا پیدا کردی گئی ہے۔میں نے پندرہ دن قبل اپنے کالم میں لکھا تھا کہ قومی کرکٹ ٹیم کے حالات ایمرجنسی کی جانب گامزن ہیں اور اب ایمرجنسی کا نفاذ ناگزیر ہوچکا ہے لیکن جس طرح ملک میں ناانصافی اور من مانی کا راج ہے یہی صورت حال کرکٹ بورڈ کی ہے لہذا سبھی ناانصافی کے دور سے سے فائدہ اٹھارہے ہیں کیونکہ جہاں کوئی پوچھنا والا نہ ہو وہاں کے اداروں اور ٹیموں کی کارکردگی کا یہی حشر ہوتا ہے۔ایک پاکستانی ہونے کے ناطے میں یہی دعا کرسکتا ہوں کہ اللہ پاکستان پر رحم فرمائے۔آمین
1 comment:
Yes, you are right, pakistan cricket is really fading away
Post a Comment